غلط معلومات اور جنگ کی ہیجان انگیزی: ایک تباہ کن چکر
آج کے دور میں غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلانا سب سے خطرناک
ہتھیار بن چکا ہے۔ بحیثیت سیاسیات کے استاد اور طالب علم، میں نے خود دیکھا ہے کہ
کس طرح سوچی سمجھی جھوٹی کہانیاں عوامی رائے کو تبدیل کرتی ہیں، حقیقت کو مسخ کرتی
ہیں، اور مخصوص گروہوں یا قوموں کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہیں۔ اب ہم اس کا ایک نئے
اور خطرناک دور دیکھ رہے ہیں جب جنگ کا ہیجان ہمارے خطے پر چھایا ہوا ہے۔ سوشل
میڈیا اور میڈیا کے بڑے ادارے پروپیگنڈے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں، جو عوام کو جنگ
کے لیے تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا مواد – کھلے جھوٹ، آدھے سچ اور اب تو
مصنوعی ذہانت (AI) سے بنائی گئی جعلی تصاویر اور
ویڈیوز – کو حتمی سچ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اس صورتحال کو اور بھی خطرناک بنانے والی چیز یہ ہے کہ عوام اب ان
جھوٹی کہانیوں کو سننے اور ماننے کی عادی ہو چکی ہے۔ جیسے کوئی گلی میں کھڑا ہو کر
مرچ مصالحے بیچ رہا ہو، ویسے ہی یوٹیوبرز اور اینکرز اپنا زہریلا پروپیگنڈہ بیچتے
ہیں۔ جتنا شور ہو، اتنا ہی زیادہ لوگ اسے سنتے ہیں۔ دوسری طرف، جو لوگ سمجھداری کی
بات کرتے ہیں، ان کی آواز کسی سننے والے کو نہیں ملتی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جنگ کسی بھی دن شروع
ہو سکتی ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ اگر جنگ ہوئی تو ختم کیسے ہوگی؟ تاریخ
بتاتی ہے کہ ایسی جنگیں اسی میزِ مذاکرات پر ختم ہوتی ہیں جہاں سے انہیں شروع ہونا
چاہیے تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بھی بے معنی ہے، کیونکہ جنگ تو وہ
حالات پیدا کرتی ہے جہاں دہشت گردی پنپتی ہے۔
یہ جنگ کی دوڑ درحقیقت ہماری سوچ کی تنگ نظری کو ظاہر کرتی ہے۔ آج
کا دور وہ نہیں جب طاقت کے زور پر ممالک فتح کیے جاتے تھے۔ اصل طاقت اب معیشت،
ٹیکنالوجی اور ثقافتی اثر میں ہے، اور ان میدانوں میں بھارت پہلے ہی آگے نکل چکا
ہے۔ پھر ہم اس دوڑ کو چھوڑ کر جنگ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ وجہ صاف ہے: جنگ سے ٹی وی
ریٹنگ بڑھتی ہے، سیاست دان مقبول ہوتے ہیں، اور میڈیا والے پیسہ کما لیتے ہیں۔
لیکن عام عوام کے لیے جنگ کا مطلب ہے صرف تباہی۔
یہ ایک ایسا چکر ہے جس سے ہم باہر نہیں نکل پا رہے: جعلی بحران،
پھر بے معنی جنگ، پھر مذاکرات۔ نتیجہ؟ کچھ حل نہیں ہوتا، صرف تباہی ہوتی ہے۔ جب تک
ہم نفرت بیچنے والوں کو مسترد نہیں کرتے اور اپنے میڈیا اور لیڈروں سے جوابدہی کا
مطالبہ نہیں کرتے، ہم جارج اورویل کے خوابِ بد میں جکڑے رہیں گے – ہمیشہ ایسی
جنگوں کی طرف بڑھتے رہیں گے جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں۔
Comments