ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگی فضا کیسے کم کی جا سکتی ہے؟
جب پوری قوم جنگ کے نعرے مار رہی ہو۔ لوگ جنونیوں کی طرح ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہوں اس وقت کسی کو صبر اور امن کا پرچار کرنا بذاتِ خود ایک پاگل پن ہوتا ہے۔ لیکن جب انسان خود اس کا قاءل ہو جاءے تو پھر بات کرنے میں کوءی مضاءقہ نہیں۔ میرا خیال ہے ہندوستان اور پاکستان کے تمام پالیسی ساز، فیصلہ ساز، دانشور اور تجزیہ نگاروں کی نظر سے ایک بات اوجھل ہے کہ یہ سب اس خطے میں امن اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر جنگ لڑ رہے ہیں جو کہ مزید نفرت اور تشدد کو جنم دے گی
۔ایسے لگتا ہے کہ یہ امن کے لیے مخلص نہیں بلکہ تشدد اور نفرت کو ہوا دینے میں دلچسی رکھتے ہیں مگر بذات یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے دوسروں کو کچل دیں گے۔ جن لوگوں نے دیہاتوں میں قباءل کے درمیان رنجش اور قتل کا بدل قتل یا انتقام دیکھا ہے یا پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کو آخر میں صرف پنچایت یا امن کے معاہدوں سے ختم کیا گیا ہے نہ کہ جنگوں سے۔ لیکن چونکہ انسان بھی ایک خونخوار جانور ہے اور تشدد پر یقین رکھتا ہے اس لیے اپنے وہم اور خواب میں بھاگتا ہوا اور دوڑتا ہوا اپنے خوابوں کی تکمیل کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں تشدد سے بھر پور فلمیں پسند ہیں۔ نفرت بھری تقاریر پسند ہیں۔ صرف چند لوگ ہی امن کی بات کرتے ہیں باقی سب جانوروں کی طرح ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
اب ہم اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ دونوں ممالک کیا چاہتے ہیں مگر عمل کیا کر رہے ہیں
(۱) دونوں ممالک ہمسایہ ہیں اور امن سے رہنا چاہتے ہیں مگر روزانہ واہگہ بارڈر پر جنگ کی تیاری کرتے ہیں اور ریہرسل کرتے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے نفرت سے بھر پور اشارے کرتے ہیں اور عوام نعرے مارتی ہے جس طرح رومی گلیڈیٹر کی لڑاءی دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے اسی طرح ہم بھی ہفتہ وار اس کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
دونوں کا سب سے بڑا مسءلہ دہشت گردی ہے مگر عملی طور پر ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات لگاتے ہیں اور بیٹھ کر اس کو حل کرنے کے لیے نہ تو کبھی ٹاسک فورس بناءی اور نہ کوءی مشترکہ لاءحہ عمل جس میں ان کی نیک نیتی شامل ہو۔ نہ ہی دونوں ملک ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہیں
دونوں ملکوں کے حکمران مذہبی تقسیم کے نعرے مارتے ہیں مگر عملی طور پر ہندو مسلم شادیوں کے بندھن میں بھی بندھے ہوءے ہیں اور ویسی نفرت نہیں کرتے جیسے عوام کو دکھاتے ہیں۔
خدا نہ کرے اگر ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو دونوں کا نقصان ہو گا کسی ایک کا نہیں۔ مگر دونوں ایک دوسرے پر ایٹمی حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دونوں ملکوں کی اکثریت ایک دوسرے سے ملنا چاہتی ہے۔وہ جب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں ان کی آنکھوں میں ایک محبت اور چاہت ہوتی ہے مگر تقسیم دونوں کو دور کر دیتی ہے
دونوں ملکوں کی تاریخ ایک ہے مگر دونوں اس کو مسخ کر رہے ہیں اور اس کو اپنا بنا کر بچوں کو پڑھا رہے ہیں اور نفرت کی خلیچ کو وسیع کر رہے ہیں
دونوں ملکوں کی ترقی کا دارومدار ایک دوسرے کی قسمت پر ہے مگر اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کی قسمت مٹانے پر تلے ہوءے ہیں۔
میں آپ کو ایک ہزار مشترکہ نقاط گنوا سکتا ہوں جن پر دونوں ملک بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں جو نہ صرف نفرت ختم کرے گی بلکہ اس خطے مین خوشحالہ بھی لاءے گی۔ مگر میری کون سنتا ہے
Comments