تارکین وطن یا اعلیٰ دماغ اور نسل پرست گورے


 انگلیند، اٹلی، فرانس، جرمنی، پولینڈ، امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں غیر ملکی تارکین وقت کے خلاف نسلی تعصب کی پہلے اکا دکا خبریں آتی تھیں مگر اب پر تشدد اور باقاعدہ ہجوم کی صورت میں یہ شہ سرخیاں بن چکی ہیں۔ اب تو نسل پرست سیاسی قائدین کھلے عام تارکین وطن کے خلاف سیاسی تقاریر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے یورپ اپنے کھوکھلے پن کا کھلے عام اظہار کر رہے ہے اور اس حماقت کی طرف جا رہا ہے جہاں سے اس کا اپنا زوال شروع ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کے نالائق، بد دیانت اور بد نیت سیاستدانوں کی بدولت آزادی کے بعد بھی دولت کا بہائو غریب ممالک سے امیر ممالک کی طرف جا رہا تھا اور آج تک جاری ہے۔ غریب ملکوں کے وسائل پر قبضوں اور من پسند وسائل پر مقامی قائدین کی ملی بھگت سے ملٹی نینشل کمپنیوں کے سائے میں یورپ نے خوب ترقی کی۔ اس ترقی کے راز میں نہ صرف مادی وسائل کا خراج ہوا مگر ذہنی بہائو کا اخراج بھی غریب ملکوں سے امیر ملکوں کی طرف ہوا۔ ہمارے ذہین ترین اور اعلیٰ دماغوں نے اپنے ملکوں میں محنت کرنے کی بجائے ان ملکوں میں محنت کی اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گئے۔ غریب ملکوں سے اکثر امیر ملکوں میں جانے والے مڈل کلاس کے بچے اپنے ملکوں میں "شہزادوں" جیسی زندگی بسر کرتے ہیں مگر اپنے سنہری خوابوں کی تلاش میں مغربی ممالک میں تمام مکروہ اور گھٹیا کام کر کے اپنی زندگی بناتے ہیں۔ وہ ہوٹلوں میں برتن دھوتے ہیں، وہاں صفائیاں کرتے ہیں، ٹیکسیاں چلاتے ہیں، کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ ایک مشین کی طرح کام کرتےہیں جن کا ہمارے اپنے معاشروں میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ غریب ملکوں میں یہ بچے ایک خوشحال اور اچھی زندگی گزارتے ہیں مگر ان کے ذہنوں میں کہیں پر یہ کنداں کر دیا گیا ہے کہ تمام ترقی کا گُر مغربی ممالک میں ہے۔ اس طرح یہ اپنے عظیم خواب کی تلاش میں ان اجنبی ملکوں اور اجنبی کلچر میں ترقی کرتے ہیں اور ان ملکوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے مقابلے میں مقامی لوگ وہ محنت نہیں کرتے۔ وہ زیادہ تنخواہیں مانگتے ہیں اور زیادہ فائدوں کا مطالبہ کرتے ہیں جو آجروں کے لیے خسارے کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح مقامی آجر کسی تارکین وطن کو کام پر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی بدولت وہ زیادہ منافع کماتے ہیں۔ اس طرح مقامی لوگوں کی بے روزگاری کا سبب ان کے اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں نہ کہ یہ تارکین وطن۔ مگر بد قسمتی سے سیاستدان اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایسے سطحی مسائل کی طرف عوامی توجہ دلانے میں ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں جو عوام کو جلد متحرک کر سکیں اور ان کے اندر خوف اور بے چینی کو جنم دیں۔

ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ پاکستان اور ہندوستان جیسے بہت زیادہ آبادی والے ملک ایک صارف کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو ایسی اشیائ استعمال کرتے ہیں جو مغرب سے آتی ہیں اور مغرب کے کاروباری لوگ اس سے منافع کماتے ہیں۔ اب اگر ان تارکین وطن کے خلاف مہم شدت اختیار کرتی ہے اور اس کے خلاف ان ملکوں میں مغربی اشیائ کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلتی ہے تو سوچیے کہ مغرب کی دولت اور چکاچوند کا کیا ہو گا؟ وہ نسل پرست یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ غریب ملکوں کی کمر پر سوار ہیں۔ اگر انہوں نے اپنی کمر سیدھی کر لی تو پورا یورپ دھڑام سے گر جائے گا۔ یورپ کی تاریخ زیادہ طویل نہیں ہے اور نہ ہی یورپ کی موجودہ ترقی کی کوہی طویل تاریخ ہے۔ نو آباد کاروں نے یورپ کو ترقی کا راستہ دکھایا اور اس راستے پر غریب ملکوں اور اعلیٰ دماغوں کا اخراج اور مقامی لوگوں کے اندر اخلاقی گراوٹ پیدا کرنا اور ان کی سوچ کو تباہ کرنا شامل تھا۔۔ اس لیے ابھی بھی وقت ہے کہ دنیا ان گروہی اور سطح مسائل پر توجہ دینے کی بجائے عالم سوچ کو اپنائے تاکہ بہتر دنیا کی تشکیل ہو سکے ورنہ اس دھرتی کی زیادہ عمر نہیں ہے اور یہ انسانوں کی کم عقلی سے تباہ ہو جائے گی۔ 






Comments

Popular Post

This is not my task