نوجوان نسل میں مثبت تبدیلی


کچھ دنوں سے مجھے اوبر یا کریم یا ان ڈرائو پر سفر کرنے کا موقع ملا۔ عجیب اتفاق ہے کہ ہر دفعہ کوئی یونیورسٹی سٹوڈنٹ کار
چلا رہا تھا۔ اس کا رویہ بھی اچھا تھا اس لیے میں نے پورے سکور دیے۔ مجھے اس لیے بھی خوشی ہوئی کہ والدین کا ہاتھ بٹھانا چاہتے تھے یا اس طرح سوچتے تھے تاکہ رزق حلال کما سکیں اور نوکریوں کے دھکے نہ کھائیں۔
میرے خیال میں نوجوان نسل میں یہ ایک مثبت سوچ ہے چونکہ جب یہی بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایسے کام کر سکتے ہیں ہوٹلوں میں کام کر سکتے ہیں ٹیکسیاں چلا سکتے ہیں تو لاہور یا پاکستان میں کیوں نہیں۔ اس طرح وہ ایک بوجھ کی بجائے خود انحصار انسان کے طور پر ابھرتے ہیں۔ وہ سیکھتے ہیں کہ کمانا کتنا مشکل ہےْ۔ وہ سیکھتے ہیں کہ خاندان کی مدد کیسے کرنی ہے۔ وہ سیکھتے ہیں کہ مختلف لوگوں سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ وہ ایک کاروبار سیکھتے ہیں اور لوگوں کے سمندر میں ابھرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ وہ صرف کتابی علم کی بجائے انسانوں کے رویوں اور تعلقات سے سیکھتے ہیں۔
نوجوان نسل کے ذہنوں میں جو تصور ڈرل کر کے بٹھا دیا گیا ہے کہ ان کو نوکری کرنی چاہیے آہستہ آہستہ مدھم ہو رہا ہے۔ نوکریوں کی تلاش میں اتنی توانائی اور رقوم بہا دیتے ہیں کہ مجبوراً رشوت کی طرف جانا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنی محنت اور رقم کو پورا کر سکیں۔
لگتا ہے پاکستان میں مختلف قسم کی نوجوان نسل ابھر رہی ہے خاص طور پر لاہور میں۔ یہاں پر سیاسی آلودگی اور سیاسی جبر کے بعد انہوں نے سیکھا ہے کہ معاشی طور پر کیسے زندہ رہنا ہے اور کیسے مضبوط ہونا ہے۔ فی الحال یہ ایک درست راستہ ہے۔ اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہی انسان کو پہاڑ کھودنے کا موقع دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان خود ہی اپنے راستے بنا لیتا ہے۔۔
وہ نوجوان جو تعلیم کے ساتھ سیلف میڈ بن رہے ہیں میری طرف سے ان کو مبارک باد! بیٹا یہی درست راستہ ہے۔ نوکریوں کے عذاب سے نکل جائو۔ خود اپنے کاروبار کرو خواہ آپ کو سڑک پر سٹے بیچنا پڑیں۔ محتاجی ذہن کو مار دیتی ہے۔ آزادی انھی سٹوں سے فلور مل بنانے کا راستہ دکھاتی ہے۔۔

Comments

Popular Post

This is not my task