تباہ کن تعلیمی نظام اور پاکستانی اشرافیہ



 

 تعلیم صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک قوم کا مکمل نمونہ ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ یہ قوم کیسی ہو گی۔اس لیے ایک ملک کے دانا اور عقلمند لوگ اس کی بنیاد کا تعین کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ قبائل جن کے سکول نہیں ہوتےتھے وہ بھی اپنے نوجوان نسل کے  طور طریقوں کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں۔ ہر قبیلہ اور قوم اپنی نوجوان نسل کو اپنے اغراض و مقاصد کے لیے تیار کرتی تھی۔ کچھ قبائل اپنی نوجوان نسل کو تجارت کی طرف راغب کرتے اور دوسری اقوام ان کو جنگجو بنانے کے لیے ۔ کچھ اپنی نوجوان نسل کو بادشاہوں کے درباروں میں نقل نویسی اور کتابت کے لیے اور کچھ قبائل اپنی نوجوان نسل کو مذہبی امور کی طرف راغب کرتے وغیرہ۔ 

تاریخ میں بے روزگار نوجوان نسل کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ایک طرف نو آباد کاروں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مقامی نوجوان نسل درکار تھی۔ بڑی بڑی فیکٹریوں اور ملوں میں کلرک یا منشی نما لوگوں کی ضرورت تھی۔ ظاہر ہےاس کے لیے  ان کو قدیم قبائل کی سوچ پر مبنی نسل نہیں چاہیے تھی بلکہ دوغلی نسل درکار تھی۔ ایسی نسل جو ظاہری طور پر مقامی ہو مگر داخلی طور پر ان کی وفادار ہو ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کو مقامی بہروپ میں غدار نما یا منافق قسم کی نسل درکار تھی۔ یہ کام سکول بہتر طور پر انجام دے سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے انگریزی سکولوں کا اختراع کیا حالانکہ بہت سے مقامی سکول پہلے بھی موجود تھے جن کا معیار تعلیم بہت بلند تھا۔ یہ ہندو، جین مت اور مسلمانوں کے سکول بر صغیر میں موجود تھے مگر یہ جو تاریخ پڑھاتےتھے یہ ان انگریزی حکمرانوں کے لیے مناسب نہ تھی۔ اس کے علاوہ جو زبانی تاریخ پڑھائی جاتی تھی وہ بھی حاکموں کے لیے خطرناک تھی۔ مثال کے طور پر زبانی تاریخ میں دلا بھٹی، رستم، دارا، سکندر اعظیم،  جیسے سورمائوں کی تاریخ مقامی لوگ گا گا کر سنایا کرتے تھے جس طرح یونان میں ہومر پڑھ کر سناتے تھے۔ ایسے سورمائوں کی تاریخ حکمرانوں کے لیے چیلنج ہو سکتی تھی۔ اس لیے اس کو تباہ کرنا اور اس کی بے قدری کرنا بہت ضروری تھا اور لارڈ میکالے کی سفارشات نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ 

 اگر آپ نو آباد کاروں کی ابتدائی تاریخ ما مطالعہ کریں یا برطانوی پارلیمنٹ کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود وہ کیوں کامیاب تھے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہرصغیر میں ایسے دوغلوں کی کمی نہ تھی جو انتہائی وفاداری کے ساتھ اپنے نئے آقاوں کی خدمت کر سکتے تھے اور اس کے عوض مقامی زمینیں اور رعایاتیں وصول کر سکتے تھے۔ 

میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب برطانوی سلطنت زوال پذیر ہو رہی تھی تو اسکو اپنے ملک کی شان و شوکت اور معاشی برتری بحال کرنے کے لیے نو آباد کار ملکوں کے وسائل کو نچوڑنے کے لیے ایسے وفاداروں کی ضرورت تھی جو ان کے ملک سے جانے کے بعد بھی یہ کام اچھے طریقے سے انجام دے سکیں۔ یہ کام انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ان کے بچوں کو ان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلے دینا اور پھر ان کو اعلیٰ عہدوں پر براجمان کرانے کی ایک اپنی تاریخ ہے۔

آج بھی پاکستان میں آزادی حاصل کرنے کے تقریباً اسی سال بعد مقامی تعلیم اور مقامی سکولوں کو گھٹیا خیال کیا جاتا ہے حالانکہ انتہائی مہنگے اور قابل قدر ایلیٹ سکولوں نے پچھلے پچاس سال میں نہ تو کوئی اہم شاعر پیدا کیا ہے، نہ کوئی اعلیٰ معیار کا سائینسدان، نہ کوئی سیاستدان نہ کوئی دانا۔۔ اگر پیدا کیے ہیں تو ایسے لوٹ مار کے ماہر  کاروباری پیدا کیے ہیں جو چونی سے ایک روپیہ بنانا جانتے ہیں۔ 

ان ایلیٹ سکولوں کے معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ کسی ایک میں بھی اعلیٰ درجے کی سپورٹس گراونڈ نہیں ہے جو لاہور کے کسی قدیم ہائی سکول کی ہو نہ اس کے برابر عمارت ہے۔ یہ ایک ایسا بڑا مافیہ بن چکا ہے جس میں لوگ بڑھی خوشی سے اپنی نسل کو بھیجتے ہیں اور اپنی جمع پونجی دیتے ہیں تاکہ سماج میں ان کی عزت ہو سکے اور لوگ کہہ سکیں کہ اس کا بچہ تو اس اعلیٰ سکول میں پڑھتا ہے۔ 

آئے اب ذرا ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان نسل کا خلاصہ کرتے ہیں کہ اس سب کا ماحاصل کیا ہے؟ یہ بچے اپنے ملک کو ہی برا خیال کرتے ہیں اور اس کو درست کرنے کی بجائے بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں۔ یہ اپنے والدین اور بزرگوں اور تاریخ پر فخر نہیں کرتے بلکہ اس میں ایسے کیڑے نکالتے ہیں اور کج بحثی کرتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ آپ جو مرضی کہو یہ مشکل سے ہی کہنا مانتے ہیں چونکہ سکول ان کو تیار کرتے ہیں کہ آپ ہی ٹھیک ہو۔ ان میں سے بہت سے بچے مادر پدر آزاد ہوتے ہیں۔ چھوٹے موٹے نشے کو برائی خیال نہیں کرتے۔ کسی قانون کی پاسداری نہیں کرتے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سکول ایسا نہیں سکھاتے۔ یہ ایمانداری سے بھی محروم ہیں اور نہ ہی اپنے اساتذہ کی عزت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بے راہ روی کی داستان عام ہیں۔ ایسے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں جو ہمارے ملک اور رواج کے برعکس ہے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ ان کو کیا تربیت دی جا رہی ہے۔  اپنے اشرافیائی نیٹ ورک کی وجہ سے یہ کسی کمپنی، ڈیپارٹمنٹ اور ادارے میں ٹاپ پوزیشن پر براجمان ہو جاتے ہیں اور اس لیے ملک کو لوٹنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ 

مختصراً آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس دوغلے انسان کو بنانے کے لیے انگریز نے اپنی نو آبادیوں میں  جو سکول کھولے تھے وہ اپنے مقصد کے لیے آج بھی انتہائی وفاداری سے کام کر رہے ہیں۔ وہ انتہائی کامیابی سے اعلیٰ دماغوں کا اخراج کر رہے ہیں۔ ان کی روحیں انگریزی کی اعلیٰ ثقافت سے داغ دی گئی ہے اور عظیم ترقی اور روشن خیالی کی بیج بو دیے گئے ہیں حالانکہ یورپ خود اپنی زبوں حالی کا رونا رو رہا ہے مگر ہمارے بچے آج بھی اسی انگریزی مشن کے جھنڈے کو نہ صرف سمندر پار سر زمین پر بلند کر رہے ہیں بلکہ اپنی زمین کے ہر کونے اور دیہات میں اس کو گاڑ رہے ہیں۔ 

سرکاری یا مقامی سکولوں کی بے قدری کا یہ عالم ہے کہ بہت سے سکولوں کو  کھوتی سکول کہا جاتا ہے حالانکہ ان سکولوں کے فارغ التحصیل بڑے خواب نہیں دیکھتے۔ وہ نامکمل تعلیم کے ساتھ اپنے روزگار کے وسیلے تلاش کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی اکا دکا اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو وہ بھی تمام لوٹ مار کے طریقے سیکھ لیتا ہے اور اپنا حسب نسب بدلنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اشرافیہ جیسا ہو سکے۔ اس کے بعد ہم لوگ یہ سوچتے ہیں پتہ نہیں ہمارے ملک کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ مغربی ملکوں کی طرح ترقی کیوں نہیں کرتا؟ حتیٰ کہ ہمارے حاکم ان اعلیٰ یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جن کا دنیا میں نام ہے مثال کے طور پر کیمبرج، آکسفورڈ، ہارورڈ یونیورسٹی۔۔ لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کا مقصد ترقی پذیر ملکوں کو اپنے مسائل کی دلدل سے نکالنا نہیں بلکہ مزید اس دلدل میں دھیکیلنا ہے تاکہ ماضی کے نو آباد کاروں کی شان و شوکت کو زیادہ سے زیادہ دیر تک برقرار رکھا جا سکے۔ 



Comments

Popular Post

This is not my task