سبزیوں اور پھلوں کی بے تکی مہنگائی

 



اگر ہم معیشت دانوں کے پیچیدہ فارمولوں پر فی الفور توجہ نہ دیں مگر سیدھے اصول پر نظر رکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی

  ہے کہ قیمتوں کا تعین مندرجہ ذیل فارمولے کے ذریعے کیا جاتا ہے:  

قیمت فروخت =براہ راست اخراجات +بلواسطہ اخراجات +منافع

آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمت اس بنیادی فارمولے کے بغیر ہی بیچی جاتی ہے۔ اس میں منافع کا عنصرحد سے زیادہ ہے جو کہ براہ راست اور بلواسطہ اخراجات کی نسبت دوگنا یا سہ گنا ہے اور اس میں غیر ضروری قسم کے عناصر ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 

پاکستان میں زیادہ تر سبزیاں دیہاتوں اور گائوں میں کسان اُگاتے ہیں مگر ان کو بیچنے کے لیے قصبوں اور شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں پر دلال یا آڑھتیے ان کی سبزیاں کوڑیوں کے بھائو ہتھیا لیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ قیمتوں پر کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کے پاس آلو، پیاز، ٹماٹر وغیرہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں جن میں ایک کولڈ سٹوریج میں ذخیرہ کرنا اور پھر قلت پیدا کر کے ان کو بیچنا ۔ اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ رمضان کے مہینوں میں آلو کی قیمت یکدم بڑھ جاتی ہے۔ قربانی سے پہلے پیاز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ حالانکہ ضروری نہیں ان دنوں میں پیاز کی قلت موجود ہو۔ 

اس کے بعد ریڑھیوں اور دوکانوں کی من مانی ہوتی ہے۔ ایک ہی شہر میں آپ کو مختلف قیمتیں نظر آتی ہیں حالانکہ پرائس لسٹ لگی ہوتی ہے۔ مگر اس پر عمل مشکل سے ہی ہوتا ہے۔ اس طرح سبزیاں پیدا کرنے والے اور خریدنے والوں کے درمیان ایک طویل دلالوں، اور آڑھتیوں اور بے ایمان قسم کے بیچنے والوں کا گروہ ہے جو اس کو کنٹرول کرتا ہے اور عوام کا استحصال کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ ریڑھیوں کا انبوہ اکثر سڑکوں پر نظر آتا ہے جو کہ ان کی براہ راست قیمت میں کمی کا سبب ہے مگر دوکان اور ریڑھی کی قیمت ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو کہیں پر یکسانیت اور منطق نظر نہیں آتی۔ جس کا جو جہ چاہتا ہے کرتا ہے اور جہاں دل کرتا ہے کھڑے ہو کر بیچتا ہے۔ اس طرح ہم سب اس بے ڈھنگے اور انتشار پسند منظر میں ڈوب چکے ہیں اور افراتفری کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔ 

 میں اس کا آپ کو ذاتی تجربہ بتاتا ہوں۔ ایک  دفعہ میں گاوئں میں گیا تو ہمارے گھر کے سامنے ایک کسان نے دھنیہ اپنے جانوروں کو ڈالا ہوا تھا ۔ میں بڑا حیران ہوا۔ میں نے پوچھا کہ یہ و لاہور میں اتنا مہنگا ہے آپ اس کو ضائع کیوں کر رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میری تو دھاڑی کی قیمت بھی پوری نہیں ہوتی اگر میں شہر لے کر جائوں ۔ پانچ کلو سو روپے میں خرید لیتے ہیں۔ اس سے بہتر میں میں جانوروں کو ڈال لوں۔ 

اس کے علاوہ بھی بہت سے عناصر ہیں جو قیمتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں مثال کے طور پر افغانستان یا دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ کر دینااور قلت پیدا کرنا۔ یا ہندوستان کی بجائے کسی دور کے ملک سے چیزیں منگانا۔ اگر غیر جانبداری سے سوچو تو یہ حکمرانی کا مسئلہ ہے۔ حکومت چاہے تو آسانی سے ان ذخیرہ اندوزوں اور بد نیت تاجروں کو لگام دے سکتی ہے تاکہ لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں تو سستے داموں میسر ہوں۔ یا یہ منافع براہ راست کسان کو جائے تو پھر بھی خیر ہے۔ مگر یہ درمیانی دلال او رآڑھتیے اکیسیوں صدی میں بھی لوگوں کا خون چوس رہے ہیں اس پر مجھے حیرت ہے۔ 

Comments

Popular Post

This is not my task