جنگ کا مستقبل: چیلنج اور نئے رحجانات


 

جنگ کے بارے میں ملکوں کے رحجانات تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں جس کی تشکیل تیکنیکی ترقی، جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں اور بدلتی ہوئی حکمت عملیوں سے طے پاتی ہے۔ اگر ہم مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کریں تو ہمیں کئی نئے رحجانات ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں ایک رحجان نئے تنازع کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ ہم ان میں سے کچھ اہم پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں

سپر طاقتوں کے درمیان رسہ کشی اور روایتی چیلنجز

سب سے پہلا بدلتا ہوا رحجان یہ ہے کہ امریکی قومی دفاعی حکمت عملی نے انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں سے اپنی توجہ  کا رخ موڑ کر روس اور چین کی طرف کر لیا ہے۔ ان اُبھرتی ہوئی طاقتوں نے روایتی فوجی صلاحیتوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے آلات، ہائپر سونک میزائل، ڈرونز اور اعلیٰ درجے کے روایتی تنازعات میں فتح یاب ہونے کی تیاری کو اہم خیال کیا گیا ہے لیکن یہ پوری تصویر نہیں ہے۔

ہایبرڈ وار فئیر اور گرے زون کا نقطہ نظر

بدلتے ہوئے رحجانات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اب ضروری نہیں ہے کہ مستقبل کی جنگیں ماضی کی طرح بڑے پیمارنے پر تنازعات کی طرح ہوں۔ روس اور چین نے پہلے ہی ایسی ہائبرڈ جنگوں کا آغاز کر دیا ہے جہاں فوجی کارروائیاں، انفارمیشن وار فئیر، سائبر حملوں اور غیر روایتی حربوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اب جنگوں میں کامیابی کے لیے ان جدید طریقوں کو سمجھنااور ان کا مقابلہ ضروری ہے۔  

فکری دوڑ بمقابہ تیکنیکی دوڑ

اگرچہ ٹیکنالوجی انتہائی اہمیت کی حامل ہے مگر تنازعات کی حرکیات کو سمجھنا اور نظریات کو اپنانا بھی انتہائی اہم ہے روس اور چین میں موجودہ تنازعات کے بارے میں فعال طور پر مطالعہ کیا جاتا ہے، نظریات کی تیاری کی جاتی ہے اور حقیقی دنیا کے منظر ناموں میں ان کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ اس لیے امریکہ صرف تیکنیکی طور پر ہی نہیں بلکہ فکری طور پر بھی آگے ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ دونوں سپر طاقتیں سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔

شہری آباد کاری اور آبادی میں اضافہ

دنیا کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور شہری علاقے بے ہنگم پھیل رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ مستقبل میں جنگیں انہی گنجان آباد شہروں میں ہوں گی جو فوجی اپریشنزی اور سیکورٹی اداروں کے لیے منفرد چیلنج ہو گا

جغرافیائی اور ماحولیاتی چیلنجز

تیزی سے جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کا تقاضا ہے کہ فوجی اداروں کو ان کے ساتھ نپٹنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی، سائبر خطرات اور غیر متناسب حربوں ک لیے لچکدار فوری رد عمل درکار کی ضرورت ہو گی۔ آخر میں جنگ کا مستقبل ٹیکنالوجی، حکمت عملی اور موافقت کے ملاپ پر ہو گا۔ جیسے جیسے قومیں تیاری کر رہی ہیں انہیں ہائبرڈ جنگوں کا تجربہ اور فہم حاصل ہو رہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں جنگ کے میدان میں صرف جدید ہتھیارہی درکار نہیں ہوں گے بلکہ پھرتیلے دماغ اور نئے اور انوکھے طریقے بھی درکار ہوں گے تاکہ دشمن ان کو سمجھ ہی نہ سکے۔  

  


Comments

Popular Post

This is not my task