مستقبل میں روزگار کے مواقع


 اگرچہ مستقبل میں جھانک کر یہ بتانا انتہائی مشکل ہے کہ کس قسم کے روزگار ہوں گے مگر تیز رفتار ترقی اور ٹیکنالوجی کی رفتار سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں نوجوان نسل کی راہنمائی کے لیے اکا دکا لوگ یا ادارے کام کر رہے ہیں مگر ہنگامی بنیادوں پر اس پر سوچ بچار کی کمی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں صرف ڈگری برائے ڈگری ہے۔ بہت سی یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں شدید کمی آئی ہے اور ممکن ہے مستقبل قریب میں یہ بڑے کیمپس خالی ہوں چونکہ یہ اب سفید ہاتھی بنتے جا رہے ہیں اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں ایسے برانڈ بنتے جا رہیں جن کی توجہ تعلیم کی بجائے اپنی پراڈکٹ پر ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو ایسے گاہک تصور کرتے ہیں جن کو ترغیب دینی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس میں داخل ہوں اس لیے ایک عام سکول سے لے کر بڑی یونیورسٹی کا کثیر بجٹ اشتہارات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس میں ایک بڑا عمل دخل جھوٹ پر بھی ہوتا ہے۔

بہت سی یونیورسٹیاں عالمی کمپنیوں کی خدمات خریدتی ہیں جو لوگوں سے اچھے رویور لکھواتی ہیں ۔ حتیٰ کہ ان یونیورسٹیوں کی رینکینگ پر بھی رقوم خرچ کی جاتی ہے۔ جو ادارے یہ رقوم خرچ کرنے سے انکار کرتے ہیں وہ اس دوڑ سے بھی باہر ہو جاتے ہیں۔ اب علم کے حصول کی بجائے پیکیج کا حصول زیادہ قابل فہم ہے۔ طالب علم کو اس کے علمی معیار،، فلسفے، دانش مندی اور حکمت کی وجہ سے نہیں جانچا جاتا بلکہ اس کی نوکری کتنی پر کشش تھی اور ڈگری اس کے لیے کتنی سود مند ثابت ہوئی، یونیورسٹی نے اس کو ملازمت کے حصول میں کتنی معاونت کی۔ یہ بھی یورپی اور عالمی اداروں میں ہوتا ہے پاکستان میں بچوں کو لاوارث ہی چھوڑ دیا جاتا ہے جو اپنی ہی کوشش سے دھکے کھا کھا کر کہیں نہ کہیں اپنا پائوں پھنسا لیتے ہیں۔

 اعلیٰ تعلیم اپنی کشش کھو چکا ہے۔ اس لیے والدین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر اتنی مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بے روزگاری کا سامنا ہی کرنا ہے تو بہتر ہے کسی چھوٹے موٹے کاروبار میں بچوں کو لگا دو۔ اس طرح وہ اپنا روزگار تو کما لے گا۔ یہ ایک عملی اپروچ ہے اور یہ سوچ بہتر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ خیراتی اپروچ کو ترک کر دے ۔ مفت لیپ ٹاپ، مفت راشن، مفت گھر وغیرہ اور ایسے آئی ٹی ہب بنانے پر توجہ دے جس میں لوگوں کو بڑے شہروں کی طرف ہجرت نہ کرنی پڑے۔ جہاں پر روزگار کے راستے بند ہوتے جا رہےہیں وہاں بہت سے نئے راستے بھی کھلتے جا رہے ہیں۔ اسلیے نہ صرف حکومت کو بلکہ نوجوانوں کو بھی ان نئے راستوں کی تلاش کرنی چاہیے اور منفی اور شارٹ کٹ چھوڑ کر مثبت اور بہتر راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ 

Comments

Popular Post

This is not my task