بیرون ملک جانے والوں کو نصحیت
پاکستان سے ہر سال نئے لوگ بیرون ملک جاتے ہیں یہ لوگ وہاں پر اپنے ملک کے سفیر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ سفیر صرف وہ نہیں ہوتا جس کو ملک تعین کرتے ہیں بلکہ ہر طالب علم، پروفیشنل یا مزدور بھی سفیر کا کام کرتا ہے ۔بعض اوقات اس کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جنہوں نے پہلی دفعہ پاکستانی کو دیکھا ہوتا ہے اور اسی ایک شخص سے وہ پورے ملک کے لوگوں کو تخمینہ لگاتے ہیں۔ اگر وہ ذہین، محنتی، دیانت دار اور دوسروں کا خیال رکھنے والا ہے تو وہ جج کریں گے کہ پاکستانی بہت ذہین، محنتی، دیانت دار اور خیال رکھنے والے ہیں اور اگر وہ بد دیانتی کا مظاہرہ کرتا ہے یا کوئی بھی برے کام کرتا ہے تو ان کا یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں بہت برے لوگ رہتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک شخص پورے ملک کے لوگوں کا تشخص مجروع کرتا ہے۔ اس لیے ملک سے باہر جانے والے پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ صرف وہاں روزگار اور دولت کمانے نہیں جاتا بلکہ اپنے ملک کا تصّور بیچنے بھی جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ایسے سنٹر بنائے جہاں پر پہلی دفعہ بیرون ملک جانے والوں کی ابتدائی تربیت کی جائے کہ وہاں کھانا کیا ہے؟ لوگوں کی طرف دیکھنا کیسے ہے؟ ان کو سلام کیسے کرنا ہے؟ اپنے ملک کو پیش کیسے کرنا ہے وغیرہ مگر بد قسمتی سے حکومتوں کی ترجیحات میں یہ کام نہیں ہیں اس لیے شہریوں کو خود ہی ایسے کام کرنے چاہیے۔
ملک سے باہر جانے والوں کا دوسری ثقافتوں اور مذاہب کے لوگوں سے پڑتا ہے۔ ابتدا میں یہ ایک زبردست ذہنی ہیجان کا سبب بنتا ہے چونکہ یہ لوگ پہلی دفعہ ایسی باتوں کو دیکھتے ہیں جن کو مذہب اور کلچر میں منع کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر وہاں پر عورتیں جین پہنتی ہیں، سکرٹ پہنتی ہیں اور سمندروں پر ننگی صرفنگ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کے کلچر میں یہ ایک روٹین کی بات ہے مگر ہمارے ہاں یہ فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے کلچر میں اس قسم کی عورت کا اچھا خیال نہیں کیا جاتا اگرچہ اب یہاں بھی بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لیے اس کی طرف گھورنا، یا ریمارکس کسنا برا خیال کیا جاتا ہے بلکہ قانون موجود ہیں جو سزا دے سکتے ہیں۔ عورتوں کے بہت حقوق ہیں جن کے بارے میں وہ معاشرے ہمارے سماج کی نسبت زیادہ حساس ہیں۔ اس لیے ان جانے والوں کو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔اس کے علاوہ بہت سی حرام چیزیں کھاتے ہیں جو ہم نہیں کھاتے اب وہاں ہر کئی لوگ تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور بلا وجہ ایک ایسے موضوع کو چھیڑ دیتے ہیں جو ان معاشروں میں نا مناسب ہے۔ جب آپ کسی دوسرے سماج میں جاتے ہیں تو اپنے ذہن میں خاکہ موجود ہوتا ہےکہ وہ کیسا ہو گا ؟ پھر وہاں اعتراض کرنا اور تنقید کرنا مناسب نہیں بنا۔ اسے ہی متنوع کلچروں کے ساتھ رہنا سیکھنا کہتے ہیں۔
یورپ میں بہت سے ادارے دوسری ثقافتوں والے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی تربیت دینے والے ماہرین موجود ہیں جو راہنمائی کرتے ہیں کہ مختلف ثقافتوں کے لوگوں کا احترام کیسے کرنا ہے۔ وہ کن باتوں کو برا مناتے ہیں اس سے گریز کرنا ہے وغیرہ لیکن ہمارے ماہرین کا مال بٹورنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ یہاں پر صرف بیرونی امداد کے بل بوتے پر ہی سوچا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری سوچ مفلوج ہو جاتی ہے۔ پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کی دنیا عزت نہیں کرتی۔ بھائی ! کیسے عزت کرے گی جب ہم اپنی عزت خود نہیں کروائیں گے۔
چونکہ میں نہ تو کسی جانے والے کو روک سکتا ہوں نہ ہی جانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں بلکہ ایک اصلاح کار کے طور پر مشورہ دیتا ہوں ہو سکتا ہے کہ آپ کے کام آئے چونکہ میڈیا عام ہے اس لیے آسانی سے اس کلچر سے آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کا قانون کیا ہے؟ ان کا کلچر کیا ہے؟ ان کی ثقافت اور تاریخ کیا ہے؟ وغیرہ۔ کہتے ہیں علم چراغ کی طرح ہوتا ہے۔ ہمیشہ اندھیرے میں کھائیوں میں گرنے سے بچاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وقت سے پہلے کی معلومات اور علم آپ کو بہت سی پریشانیوں سے بچائے۔
Comments
Post a Comment