عمران خان کی شخصیت کا طلسماتی سحر
طلسماتی سحر میں نوجوان نسل جکڑ چکی ہے۔ وہ ایک مذہب کی طرح سورما بن چکا ہے جس کو نہ تو قید و بند کی صعوبتیں ختم کر سکتی ہیں نہ سرکاری کی پابندیاں اور نہ ہی اس کی کردار سازی کسی کام آ سکتی ہے۔ یہ سب اس کے ورکروں کے لیے بے کار ثابت ہوئی ہیں۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لینے کے باوجود اس کی اکثریت یہ ثابت کرتی ہے کہ پانی سر سے گذر چکا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتیں ایک چلے ہوئے کارتوس کی طرح بے ضرر ہیں۔
پاکستانی سیاست اصولوں اور منشور کے بغیر شخصیت پرستی پر چلتی ہے۔ورلڈ کپ جیتنے سے لے کر اب تک وہ ایک ایسی شخصیت بن چکا ہے جس کے سحر کو توڑنا ناممکن نظر آتا ہے۔ اس کے غلط فیصلے ، تباہ کن معاشی اور سیاسی پالیسیاں، گمراہ کن مذہبی بیانات بھی کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اس کا ہر غلط قدم بھی اس کے لیے اچھا ثابت ہوا اور اس کا اس کو خود بھی یقین تھا کہ آپ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ شاید یہ اسی حد سے زیادہ اندھا یقین ہی اس کے ورکروں کا بھا گیا ہے۔
عمران خان اور اس کی جماعت سیاسی جماعت سے ایک عقیدہ یا مذہب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے اور کوئی شخصیت اس مقام پر پہنچ جاتی ہے تو پھر ملک کے اندر ابتری اور انتشار کے آثار زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں چونکہ وہ باہمی مفاہت کی سیاست سے انکاری ہوتے ہیں اور ہر بڑی طاقت سے ٹکرانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ یوں تخت یا تختہ والی صورت حال خوفناک نتائج پیدا کرتی ہے جس کی ایک مثال ہم پہلے ہی دیک چکے ہیں جب پچھلے سال نو مئی کو فوج کے ساتھ ٹکرانے کے نتائج ہم نے دیکھے ہیں۔
عمران خان کی حکومت بنے یا نہ بنے یہ بات ثابت ہے کہ اس کی جماعت باقی تمام جماعتوں پر حاوی ہے۔ ان کو الیکشن سے باہر کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے اور وہ پھر اس اکھاڑے میں زبردستی گھس گئے ہیں جس میں ایک بار پھر دھینگا مشتی کا میدان سچ رہا ہے۔ تاہم اس الیکشن کے بعد جو سوشل میڈیا پر نا انصافی اور بد دیانتی کے بیج بوئے جا رہے ہیں اس کی فصل ہم ہی کاٹیں گے۔ یہ فصل عدم رواداری، انتہا پسندی، تشدد، کرپشن اور لوٹ مار کی شکل میں ہو گی۔
جو بھی حکومت بنے گی وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہی تخت پر بیٹھے گی اور ظاہر ہے ان کی حمایت کے عوض کرپشن اپنے سابقہ ریکارڈ توڑ دے گی۔ فی الحال الیکشن کے بعد بھی حالات سکون کا سانس لیتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ہو سکتا ہے کہ فوج اور تمام سیاست کے قدیم ارسطو کوئی حل نکال لیں لیکن ان نوجوانوں کا کیا کریں گے جو روز ان کی کردار کشی کے لیے ان کی ویڈیو وائرل کریں گے اور نا انصافی کو نمایاں کرنے کے لیے نفرت کے بیج بوتے جائیں گے جب تک ان کے خان برسر اقتدار نہیں آ جاتے۔ اگر وہ آ جاتے ہیں تو پھر موجودہ سیاست دانوں کا کیا ہو گا؟
بات سیاست سے آگے نکل چکی ہے۔ عالمی دنیا پر بدلتے ہوئے حالات کے سامنے ہم اپنے ہی گروہی اور سیاسی حالات کے سبب ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں یہ ایک منحوس دائرہ ہے جس کے اندر صرف انتقام، رشوت، جوڑ توڑ، لوٹ مار اور اشرافیہ کی من مانی شامل ہے۔ باقی عام لوگوں کو اس سے باہر نکال دیا گیا ہے آپ ان کو حاشیہ بردار بھی کہہ سکتے ہیں ۔ وہ لوگ جن کو حاشیہ سے باہر نکال دیا گیا ہے اور سیاست کی کتاب کے صفحے کے کنارے پر ڈال دیا گیا ہے۔
Comments
Post a Comment